ماریہ کا “کیوں؟”
یہ پولینڈ کی نیزہ پھینک یعنی جیولن تھرور ماریہ ہے۔ 2016 میں یہ صرف دو سینٹی میٹر کی وجہ سے اولمپک میڈل ہار گئی۔ 2017 میں کندھے کی انجری ہوئی اور 2018 میں اسے بون کینسر ہو گیا۔ ماریہ کے لیے یہ سب قابل قبول نہ تھا۔ اسے زندہ رہنا تھا۔ توانا ہونا تھا۔ تمغہ جیتنا تھا۔ سو، وہ بہادری سے کینسر سے لڑی اور اس موذی مرض سے جیت گئی۔ نہ صرف یہ بل کہ اسپتال سے نکلی تو سیدھی واپس کھیل کے میدان میں گئی اور ایسا کم بیک دیا کہ 2021 میں ٹوکیو میں منعقد ہونے والے سمر اولمپکس میں چاندی کا تمغہ جیت لیا۔ یوں وہ اپنے ملک کی نوجوان نسل کے لیے عزم و ہمت کا ارشد ندیم بن گئی۔
انہی دنوں ایک بچے کبوس کے والدین اس کے علاج کے لیے چندہ اکٹھا کرتے پھر رہے تھے۔ تاہم اس سے پہلے کہ وہ اسپتال کا خرچہ پورا کر کے اپنے لخت جگر کا علاج کرواتے، کبوس کی سانسیں پوری ہوگئیں۔ کبوس کے والدین کے پاس اب ایک طرف چندے کے سوا لاکھ ڈالر تھے اور دوسری طرف غم کا پہاڑ۔ پھر ایک اور بچے، ملوزیک، کے والدین نے اس کے دل کے علاج کے لیے چندے کی اپیل کر دی جو کسی طرح کبوس کے والدین کے کانوں تک پہنچ گئی۔ وہ اٹھے اور سیدھا جا کر سوا لاکھ ڈالر آٹھ ماہ کے ملوزیک کے حوالے کر دیا تاکہ ملوزیک کے دل کا مشکل علاج ممکن ہو اور ان کے غم کا کچھ مداوا۔ لیکن یہ علاج مہنگا تھا۔ کم از کم سوا لاکھ ڈالر مزید درکار تھے۔
ادھر ماریہ ایک، ڈیڑھ ماہ پہلے جیتا ہوا اپنا چاندی کا تمغہ سینے پر سجائے خوشی کے جشن مناتی پھر رہی تھی۔ اسے اپنا سفر ایک خواب معلوم ہوتا تھا۔ اسے کینسر کے دنوں کی راتیں یاد آتیں جب وہ خود سے یہ سوال کرتی کہ آخر میں ہی کیوں؟ آخر مجھے ہی کیوں اس آزمائش میں ڈالا گیا؟ اور اب جب وہ اپنے تمغے کو اپنی ہتھیلی پر رکھتی تو ایک بار پھر اس کا سامنا ایک سوال سے ہوتا: کیوں؟ آخر میں ہی کیوں؟ آخر میں ہی کیوں اس اعزاز کے لیے منتخب ہوئی۔ تاہم ابھی اس نے اپنے تمغے کو جی بھر کے دیکھا ہی نہ تھا کہ ایک دن اس کے سوال کا جواب اس تک پہنچ گیا۔ ملوزیک کا دل تیزی ڈوب رہا تھا اور اس کی ماں سوشل میڈیا کے چوراہے پر جھولی پھیلائے کھڑی تھی۔ ماریہ چاہتی تو چندے کی اپیل والی پوسٹ اپنی فیس بک وال پر لگا کر یا سو، دو سو ڈالر دے کر ملوزیک کی کچھ تھوڑی بہت مدد کر سکتی تھی۔ مگر اسے معلوم تھا کہ چندہ آہستہ آہستہ آتا ہے اور وہ ملوزیک کو دوسرا کبوس بنتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ سو، اس نے اپنی زندگی کی سب سے پیاری چیز، جسے اس نے کینسر سے لڑ کر جیتا تھا، اٹھائی اور سوا لاکھ ڈالر میں بیچنے کے لیے سوشل میڈیا کے اسی چوراہے پر رکھ دیا جہاں ملوزیک کی ماں کھڑی تھی۔ پولینڈ کی ایک بڑی فرم زبکا سپر مارکیٹ کے امیر مالکوں کو پتہ چلا تو انہوں نے ملوزیک کے والدین کو سوا لاکھ ڈالر ادا کر کے ماریہ کا تمغہ خرید لیا۔ ملوزیک امریکہ کے اسٹینفرڈ ہیلتھ سینٹر پہنچ گیا جہاں اس کی کامیاب سرجری ہوگئی۔ ماریہ کو اپنے سب سوالوں کے جواب مل گئے۔ اب ملوزیک کا دھڑکتا دل ہی اس کے سینے پہ سجا تمغہ بھی تھا اور اس کے اندر کا سکون بھی۔ مگر سونے کے دل والی یہ (2021 میں) پچیس سالہ لڑکی اپنے چاندی کے تمغے سے بھی محروم نہ ہوئی۔ یہ سوچ کر کہ سمر اولمپکس کا تمغہ ماریہ کے لیے کس قدر معنی خیز تھا، زبکا کے امیر مالکوں نے اسے اپنے کسی اسٹور میں سجانے کے بجائے اسے واپس ماریہ کی جھولی میں ڈال دیا۔
تو دوستو، ہر شکست اور ہر فتح کا ایک “کیوں” ہوتا ہے۔ اپنی ہار اور جیت کو اس وقت تک مکمل نہ سمجھیں جب تک آپ کو اس “کیوں” کا جواب نہ مل جائے۔
کیوں کہ یہیں سے اچھائی کی اک نئی لڑی کا آغاز ہوتا ہے۔ ان لڑیوں میں قربانیاں پرونے والوں کی خیر ہو !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد شیراز دستی
تصویر: وکی میڈیا کامنز
برادر نیر فاروق صاحب کی وال سے نقل شدہ محض ایک جملے کے فرق سے