منصورآفاق

صحت مند معاشرے کی تشکیل
منصور آفاق
آج کا اخبارادارتی صفحہ06 ستمبر ، 2024

ڈاکٹر عیص محمد کانام میڈیکل کی دنیا میں بڑی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے ۔وہ بہت سے میڈیکل کالجوں کے پرنسپل رہے۔ان کے تفصیلی تعارف کیلئے دفتر درکار ہیں ۔ ان کا تحریر کردہ ایک کتابچہ میری نظر سے گزرا اورمیں اسے پڑھ کر سوچنے لگا کہ یہ جو کچھ انہوں نے لکھا ہے اگر محکمہ صحت اس کے مطابق لوگوں کو زندگی گزارنے کی طرف متوجہ کرےتو حیرت انگیز نتائج سامنے آ سکتے ہیں ۔بے شمار لوگ بیمار ہونے سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ایسا کرنے سے سرکاری ہسپتالوں پر مریضوں کا دبائو کم ہونا شروع ہوجائے گا اور ایک صحت مند معاشرہ وجود میں آنے لگے گا ۔کسی بھی زندہ معاشرہ کی پہلی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو صحت مند رکھے ۔اسی بنیاد پر ترقی یافتہ ممالک نے کام کیا اور وہاں کے لوگوں کی اوسط عمر حیرت انگیز طور پر بڑھ گئی۔

ڈاکٹر عیص محمد اپنی کتاب حفظان ِ صحت میں ورزش کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ باقاعدہ ورزش کرنے سے وزن نہیں بڑھتا، ذہنی اور جسمانی طور پر آدمی چاق وچوبند رہتا ہے۔ہڈیاں اور پٹھے مضبوط ہوتے ہیں ۔شوگر اور بلڈپریشر جیسی بیماریاں قریب نہیں آتیں ۔دل کی شریانیں کھلی رہتی ہیں ،ہارٹ اٹیک نہیں ہوتا۔خون منجمد نہیں ہوتا یعنی آدمی فالج سے محفوظ رہتا ہے۔عمرمیں اضافہ ہوتا ہے ۔ قبض نہیں ہوتی ۔خون کی چربی کم ہوتی ہے۔اس کے ساتھ انہوں نےاحتیاط بھی بتائی ہے کہ چالیس سال کے بعد سخت ورزش نہیں کرنی چاہئے۔ہارٹ کے اور بلڈپریشر کے مریضوں کو صرف سیر کرنی چاہئےتاکہ سانس نہ پھولے اور سردی میں سیر بھی نہ کریں۔کھانا کھا کر ورزش کرنا کسی کیلئے بھی درست نہیں۔ورزش سے پہلے دانت صاف کرنا ضروری ہے ۔جوڑوں کے مریض ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق ورزش کریں ۔

معمولاتِ زندگی کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھویں مگرکسی تولیہ وغیرہ سے خشک نہ کریں۔مرچیں ، مصالحے،گھی اور تیل استعمال کرناچھوڑ دیں۔زیادہ ضروری ہو تو سورج مکھی یا زینون کا تیل استعمال کرلیں ۔چربی والا گوشت،سری پائے،کلیجی ، مغز،حلوہ پوری ،پراٹھا،مٹھائیاں بیکری کی اشیا کم سے کم استعمال کریں ۔بہت ٹھنڈا پانی ، سوڈے کی بوتلیں اور آئس کریم بھی کم کھائیں۔کھانے کے ساتھ کچے پیاز،گاجر ،مولی،تر اور کھیرا ضرور کھائیں۔کھانے کے بعد کلی بھی کریں اور ہاتھ بھی دھوئیں ،دانتوں میں خلال بھی ضروری ہے۔پانی میں بھیگی ہوئی مسواک یا نرم ٹوتھ برش صبح شام کریں۔یہ تو وہ باتیں ہیںجو عام لوگوں کیلئے ہیں جن پر عمل کے بعد انہیں کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔بہت سی باتیں انہوں نےمریضوں کیلئے درج کی ہیں کہ جن کے بعدوہ مرض میں افاقہ محسوس کریں گے۔ بین الاقوامی سطح پر صحت مند معاشرے کی تشکیل کیلئے مسلسل تجربات جاری ہیں۔ سنگاپور کے ہیلتھ پروموشن بورڈنے نوجوانوں کے گروپوں کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے نوجوانوں کی سگریٹ نوشی کی شرح کو کم کرنے کا ارادہ کیا ہے تاکہ شرکاء کو ہفتہ وار میٹنگز میں راغب کیا جا سکے۔ چھ مہینوں میں، بورڈ نے شراکت کی طاقت کو ظاہر کرتے ہوئے ثابت کیا کہ سگریٹ نوشی کی شرح 40فیصد سے کم ہو کر 10فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ویک فیلڈ، انگلینڈ میں، صحت عامہ کاسماجی گروپ صحت پر رہائش کے منفی اثرات کے خاتمے کیلئے متحد ہوا ۔اس کی مجموعی کوشش کے نتیجے میں ایمبولینس کی ضرورت میں کمی آئی ۔فوری طبی مسائل کم ہوئےاور دماغی صحت کے علاج میں بہتری آئی۔ جسکے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق ایک سال میں400000 پونڈ کی بچت ہوئی۔

امریکہ میں، وزٹنگ نرس ایسوسی ایشن آف ٹیکساس کے میلز آن وہیلز پروگرام نے ایک ورچوئل آبادی کا تجزیہ کیا۔ تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ غذائیت سے بھرپور کھانے کی فراہمی نےحالات کی خرابی کو کم کیا، صحت کے اخراجات میں سالانہ 10.4 ملین ڈالر کی بچت کی، اور اس کی آبادی کو 24فیصدکم ہارٹ اٹیک ہوئے، 12فیصدکم کنجیسٹو ہارٹ فیلیئر ہوئے۔ 12فیصد کم فالج ہوا۔ اس پروگرام میں ایسے راستے بنائے گئے جن پر چلتے ہوئے ورزش ہو جاتی تھی۔ سماجی طور پر الگ تھلگ لوگوں کو جذباتی مددفراہم کی گئی ۔

امریکہ، ٹیکساس میں ذیابیطس کو کم کرنے کیلئے اس بات پر غور کیا گیا کہ لوگ کس طرح رہتے تھے۔ ان کے رہن سہن کےعمل کو بہتر بنانے سے صحت کے بہتر نتائج برآمد ہوئے۔ پاکستان میں اس وقت صحت کے معاملات بہت خراب ہیں ۔ہم سب کچھ داؤ پر لگا چکے ہیں۔ حکومتیں پریشان ہیں، سرکاری ہسپتال کم پڑ رہے ہیں ۔دوا ساز کمپنیاں اور پرائیویٹ ہسپتال صرف پیسہ بنا رہے ہیں ۔صاف ظاہر ہے کہ بہت جلد ہم بیماری کی بڑھتی ہوئی شرح کے سبب غیر پائیدار اخراجات پورے نہیں کر سکیں گے۔ ہمیں اس حوالے سے قومی سطح پر کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ لیڈران فوری طور پر درکار سماجی حکمت عملیوں کو اپناتے ہوئے آگے بڑھیں اور معاشرے کو حقیقی صحت کی طرف متوجہ کریں۔اسی طریقہ کار کی طرف جو ڈاکٹر عیص محمد کے کتابچے میں درج ہے۔ ایسا ماحول بنائیں کہ لوگ کم سے کم بیمار ہوں۔ ملاوٹ شدہ اشیا کی روک تھام کیلئے انتہائی سخت قانون بنائے جائیں۔ سائیکل کے استعمال کی طرف معاشرے کو راغب کریں۔ ذہنی صحت کی طرف توجہ دیں ۔ایسے اقدامات کیے جائیں کہ لوگ ڈپریشن کا شکار نہ ہوں ۔ظلم کا خاتمہ ہو۔ عدالتیں انصاف کریں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تطہیر کی جائے۔ صفائی کا خاص خیال رکھا جائے ۔صاف پانی کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے۔ سرمایہ و محنت کے درمیان بڑھتے ہوئے تفاوت کو کم کیا جائے۔ یہ باتیں ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کیلئے انتہائی ضروری ہیں وگرنہ ہمارا ڈپریشن زدہ معاشرہ کسی وقت بھی کسی کھائی میں گر سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *