حمیرا مسعود

محترم طارق بلوچ صحرائی صاحب کا شمار عصر حاضر کے ان عظیم دانشوروں میں ہوتا ہے جن کی تحریریں اصلاح معاشرہ خصوصا نوجوان نسل کو بہترین رہنمائی فراہم کرتی ہیں، جو کہ ان کو معاشرے کا ایک major contributor بنانے میں بہت معاون ثابت ہوتی ہیں، کیونکہ صحرائی صاحب کے مطابق انسان اپنے ماحول اور معاشرے کی product ہے اور ایک متوازن شخصیت ہی ایک مثالی سماج کی ضمانت ہے اسی لیے افراد کی شخصی اور فکری تعمیر صحرائی صاحب کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ صحرائی صاحب کے خیالات اور افکار اس دور کے تمام issues اور concerns کو کامیابی کے ساتھ acknowledge کرتے ہیں۔

صحرائی صاحب فطرتا حقیقت پسند شخصیت کے مالک ہیں، جس کا واضح عکس ان کی تحریروں میں موجود ہے۔ صحرائی صاحب اپنے بے پناہ علم و دانش کی بدولت ہر تصور کا ایک حقیقی رخ پیش کرتے ہیں جو کہ ایک guideline کی مانند ہوتا ہے یا دوسرے الفاظ میں انسان کی orientation کی وضاحت کرتا ہے اور نتیجتا انسان کا اپنے مقصد سے انحراف ممکن نہیں رہتا۔
یہ کہا جائے تو ہرگز بےجا نہ ہوگا کہ صحرائی صاحب کی شخصیت ایک با عمل مبلغ کی ہے جن کے خیالات کی purity ،ان کی practical approach سے ظاہر ہوتی ہے, اسی لیے آپ کے الفاظ یہ احساس پیدا کرتے ہیں کہ جیسے یہ ہمارے لیے ہی تخلیق کیے گئے ہوں۔

صحرائی صاحب expressively بیان کرتے ہیں کہ

” علم سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہے، جو چیز دل سے نکلتی ہے وہ دل میں جا بیٹھتی ہے۔ practicality ہی دوسروں پر اثر انداز ہوتی ہے۔”

اسی سبب کردار کے غازی صحرائی صاحب کے الفاظ انسان کی سوچ اور فکر میں مثبت تبدیلی کا باعث بن کر عمل کے دائرہ کار تک پہنچا دیتے ہیں۔

صحرائی صاحب بہت ہی خوبصورت فقرہ تحریر کرتے ہیں کہ

“عمل ہی تبلیغ ہوتا ہے اور تبلیغ میں زبان کا کردار اتنا ہی ہے جتنا جسم میں زبان کا حصہ ہے”۔

صحرائی صاحب کا intellectualism تمام علوم پر محیط ہے ،خصوصا فلسفے اور صوفی ازم پر آپ زیرک نگاہ رکھتے ہیں جس کی عکاسی آپ کی تحریروں میں واضح ہے۔ صحرائی صاحب کے خیالات ،فکر، دانائی اور vision انسان کو trance کی کیفیت میں لے جاتے ہیں اور انسان اپنے اپ کو ایتھنز کے دانش کدے میں محسوس پاتا ہے۔

کسی مفکر نے کیا خوب کہا ہے کہ “سوچنے والے کی دنیا، دنیا والوں کی سوچ سے مختلف ہوتی ہے”،
اور صحرائی صاحب کے خیالات، wisdom اور تدبر کو دیکھ کر اس بات کا غالب گمان ہوتا ہے کہ یہ یقینا صحرائی صاحب کے لیے ہی کہا گیا ہے۔

صحرائی صاحب کے write up کا خاص وصف جو ان کو سب سے منفرد اور ممتاز کر دیتا ہے کہ آپ اپنی تحریروں میں ایک سوچ یا ایک concept متعارف کرادیتے ہیں جس کی deliberation سوالات ،خیالات اور ان کے مابین connection کے ایک لامتناہی سلسلے کے آغاز کو جنم دیتی ہے جو کہ علم کی multiple dimensions کی طرف lead کرتا ہے یا دوسرے الفاظ میں صحرائی صاحب کے خیالات انسان کو سوچنے پر آمادہ کر دیتے ہیں۔ صحرائی صاحب کی تحریریں انسان کے ذہن میں اٹھنے والے لا تعداد un expressed/ implied questions کو respond کر کے internally satisfy کردیتی ہیں اور انسان کو اس کی ذات کے دائرے اور personal prejudices سے باہر نکال کر نئی سوچ اور علم کی نئی جہت سے روشناس کراتی ہیں جو کہ صحرائی صاحب کے گہرے مشاہدے اور دانائی کی دلیل ہے۔

صحرائی صاحب زندگی کو فطرت سے derive کرتے ہیں, دل اور روح کو زندگی کی علامت قرار دیتے ہیں۔ صحرائی صاحب عقل و دانش کو دل اور روح کے درمیان ایک رکاوٹ consider کرتے ہیں جبکہ فطرت ان کے درمیان ایک connection قائم کر دیتی ہے۔

صحرائی صاحب بہت ہی meaningful فقرہ کہتے ہیں کہ

“عقل دل کے پیغامات قبول نہیں کرتی انکار کرتی ہے جبکہ دل روح کا مسکن ہے”۔
اسی سبب صحرائی صاحب کی legacy میں عقل اپنی حدود میں exist کرتی ہے اور فطری قوانین prior ہوتے ہیں کیونکہ فطرت احساسات اور جذبات کے لامحدود تصورات پر مشتمل ہوتی ہے ،جبکہ عقل جذبات اور احساسات کی نفی کا نام ہے۔
فطرت اپنی flexibility کے باعث قدرتی ارتقا کے ساتھ compatible ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے اور جدید دور کے تقاضوں کو بھی counter کرکے ایک harmony create کرتی ہے, جبکہ عقل بیرونی اثرات اور وسوسے کو قبول کر کے doubt کے level تک پہنچا دیتی ہے.

صحرائی صاحب بہت ہی خوبصورت فقرہ قلم بند کرتے ہیں جو کہ عقل و دانش اور جذبات و احساسات کے درمیان incompatibility کی بہترین وضاحت ہے

“مجھے ایسا شعور اور ایسی دانش نہیں چاہیے جو اپنے لمحے سنوارنے کے لیے دوسروں کی صدیاں اجاڑ دے”۔

صحرائی صاحب کی کتاب “لمس کی چپ” آپ کی حساس طبیعت، انسانیت سے بے لوث محبت، آپ کی معاشرتی اور معاشی مسائل پر گہری نگاہ، تہذیبوں کے درمیان فرق، آپ کے بہترین افکار اور آپ کی صوفیانہ طبیعت کو demonstrate کرتی ہے۔

صحرائی صاحب کی کتاب “لمس کی چپ”، محبت ،احساسات، رشتوں اور ان کے درمیان سرائیت کرتی خاموشی یا چپ کے اسباب کو بیان کرتی ہے۔

لمس کی حیثیت ایک مسلمہ وجود کی سی ہے جو کہ محبت، خلوص، اپنائیت اور ایثار کے اظہار کا نام ہے۔ زندگی میں سکون اور طمانیت کا باعث ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو اجنبی انسانوں کو بھی شناسا بنا کر انہیں احساس کے خوبصورت اور بے غرض رشتے سے منسلک کر دیتی ہے۔
لیکن مادہ پرستی کے زیر اثر سرمایا دارانہ نظام میں انسانیت, احساس, سکون, محبت, خلوص اور رشتے جیسے قیمتی تصورات جو محسوسات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے گنتی میں شمار نہیں کیے جا سکتے اہمیت کے حامل نہیں ہوتے ۔ جبکہ اس نظام میں صرف سرمایہ اور منافع ہی وجود رکھتے ہیں، کیونکہ وہ اعداد و شمار پر base کرتے ہیں۔ اور صحرائی صاحب اس حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ گنتی میں شماریت ہی دراصل اختتام کا آغاز ہے۔

صحرائی صاحب significantly بیان کرتے ہیں کہ

” سرمایہ دار صرف منافع کا ہی خریدار ہے، چاہے اسے خود کو اور انسانیت ہی کو کیوں نہ بیچنا پڑے”۔

بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام طلب اور رسد کے اصولوں پر قائم ہے اور توکل کی بجائے رسد میں کمی کا اندیشہ پیدا کرتا ہے، جو کہ بھوک کے خوف کا سبب بنتا ہے اور انسان ساری زندگی اس بھوک کے خطرے کی غلام گردش سے باہر نہیں نکل پاتا۔

صحرائی صاحب اس حقیقت کو بہت بہترین اسلوب میں بیان کرتے ہیں کہ

“جس معاشرے یا جس قوم کا مسلک بھوک ہو پھر اسے ہڈی کی زنجیر کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے اور خاموشی کی بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں۔”
صحرائی صاحب مزید وضاحت کرتے ہیں کہ

” سرمایہ دارانہ نظام بھوک کے خوف سے سہما ہوا دجالی نظام ہے۔”

یہ دنیا فنا کے اصول پر قائم ہے اور صحرائی صاحب واضح کرتے ہیں کہ “انسانوں کا بنایا ہوا یہ قانون اس دور کا طاغوت ہے”۔ یہ نظام فانی کو فنا سے منسلک کرکے اسے مقصد حیات سے منحرف کردیتا ہے۔
جبکہ صحرائی صاحب کہتے ہیں کہ

“فانی کے حق میں یہ ہی بہتر ہے کہ وہ لافانی سے اپنا تعلق جوڑ لے”۔

حرص، طمع، comparison اور زیادہ سے زیادہ منافع کی آرزو انسان کو دنیا کی زندگی میں مقید کر دیتی ہے۔
انسان اپنی زندگی matter اور دنیا جیسے محدود یا (زوال کا شکار) سے extract کرتا ہے، جو کہ فطرتا ہمیشہ سے قلیل ہے، اور پھر انسان اپنی ساری زندگی اس قلت کی maximization کی فکر میں مبتلا رہتا ہے جو کہ حاصل کے لطف کے احساس کو یکسر ختم کردیتی ہے نتیجتاً انسان لمحہ موجود کے علاوہ ہر دور میں exist کرتا ہے۔

صحرائی صاحب بہت ہی خوبصورت بات کہتے ہیں جو کہ انسان کی اس کیفیت کا بہترین اظہار پیش کرتی ہے

” دنیا ایک مردار ہے اور ازل سے مردار ہی ہمیشہ کم ہوتا ہے اور اس کو کھانے والے جانور ہمیشہ زیادہ ہوتے ہیں اسی لیے تو لڑائی ہوتی ہے”۔

سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد matter پر استوار ہوتی ہے جو کہ روح کے مخالف ہے اور مادہ کسی بھی صورت روح کو satisfy نہیں کر سکتا کیونکہ دونوں کی directions مختلف ہیں, ایک دنیا سے رشتے پر بضد ہے اور دوسرے کی منزل معراج ہے۔

صحرائی صاحب precisely اس فرق کو ثابت کرتے ہیں کہ

“روح کو آباد کروں تو جسم اجڑ جاتا ہے اور جسم کی تعمیر میں روح تخریب کا شکار ہوجاتی ہے “۔

یہ نظام اخلاقیات سے مبرا ہوتا ہے۔ خلوص، محبت، سکون اور دائمی خوشی سے ناواقف ہوتا ہے، ایثار اور احساسات کو خاموش کرا دیتا ہے اور لمس کی دستک کو منافع کی دستک میں تبدیل کردیتا ہے۔

صحرائی صاحب کہتے ہیں کہ

“بھوک کے خوف سے باہر نکلو وگرنہ لمس کی دستک سنائی نہ دے گی، اور جس بدبخت کو لمس کی دستک سنائی نہ دے وہ انسانیت کے درجے سے گر کر جمادات اور حیوانات کے درجے پر چلا جاتا ہے”۔

شعور، علم، دانائی اور cognition سرمائے سے replace ہو جاتے ہیں۔ انسان کی سوچ کا محور زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول تک محدود ہو جاتا ہے اور دولت کا لمس، محبت کے لمس پر غالب آ جاتا ہے۔

صحرائی صاحب categorically conclude کرتے ہیں کہ

” یہ ایک ایسا شیطانی نظام ہے جس میں ایک ایسا جال بنا جاتا ہے جس میں لوگ چاروں سمت چلنے لگتے ہیں اور چاروں سمت چلنے والے کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں انسان کو دولت سے تولا جاتا ہے اور اس کے قد کو عہدے کے میٹر سے ماپا جاتا ہے۔”

اقتباسات:
تجوریاں جب جاہلوں کی دسترس میں آجائیں تو شعور مفلسی کی قبا پہنے در بدر پھرنے لگتا ہے۔

عہد الست میری لاشعور میں کہیں پنا ہے شاید اسی لیے میرے اندر کا بت خانہ بھی قبلہ رو ہے۔

قلم کا سر کبھی قلم نہ کرنا کیونکہ قلم کی بریدگی صرف خون لکھتی ہے۔

لوگوں کو تقسیم نہ کرنا یہ آفاقی گناہ ہے اور آفاقی گناہ کی کم از کم سزا دل کی بے اطمینانی ہے۔

علم اس کمال کا حاصل کرنا کہ ذہن دل کا درجہ پالے جب کوئی ذہن دل کا مقام حاصل کر لیتا ہے تو کائنات سرشاری سے جھوم جاتی ہے۔

جو قوم اپنے الفاظ کے قتل کے جرم کا ارتکاب کرتی ہے ایک ان دیکھا نامعلوم پھانسی گھاٹ ان کا مقدر ٹھہرتا ہے۔

کسی بھی قوم کی نفسیاتی صحت کا دارومدار شاعر یا ادیب کے سچ اور سماجی انصاف سے وابستگی پر ہے۔

ایسے اندھیرے تو انتہائی کربناک ہوتے ہیں جو کسی روشنی کی عطا ہو مگر جس کی رات سے دوستی ہو جائے اسے کسی اور دوستی کی ضرورت نہیں رہتی ۔

اپنی روح کو اتنا کثیف کیوں ہونے دیتے ہو کہ سوال پوچھنے کی نوبت آئے۔

دنیا میں ملکیت نہیں ہوتی صرف لیز ہوتی ہے۔

خوشی کا تعلق آپ کی روح سے ہوتا ہے اور بدقسمتی سے ہم نے روح کو دولت کے ہاتھوں بیچ دیا ہے۔

اپنی ذات کے قیدی ایک دوسرے سے صرف خود کلامی کرتے ہیں۔

خاموشیاں کبھی کبھی بڑی تفصیل سے جواب دیا کرتی ہیں۔

ہم قضا کے اسیر ہیں اور قضا بگاڑتی ہے بناتی نہیں ہمیں ضائع کر دیتی ہے۔

تخلیق کار خوابوں کے درمیان جاگا ہوا شخص ہوتا ہے اس کی ساری عمر دکھ کی دکھن کو لفظوں کا روپ دیتے دیتے گزر جاتی ہے۔

علم والے رد عمل نہیں دیتے خوشی ملے تو بھی خاموشی سے شکر ادا کرتے ہیں دکھ کا پہاڑ بھی گر جائے تو چیخ و پکار نہیں کرتے۔

کبھی مجھے لگتا مرکز بدل گیا ہے مگر محور وہی ہے کبھی لگتا محور بدل گیا ہے مگر مرکز وہی ہے۔

شب کے طاق میں اگر اشکوں کے چراغ نہ جلیں تو دن کا اجالا بھی بڑا بے نور اور بے رونق ہو جاتا ہے۔

رات کا ایک سورج بھی ہوتا ہے جو صرف گداز دلوں کے اندر ہی چمکتا ہے رات دلوں میں سوز اور گداز پیدا کرتی ہے اور گداز دل اللہ کے ہاں بڑا مقام رکھتا ہے۔

رات کے دروازے پر دستک نہیں دیا کرتے بس اپنی خاموشیاں اس کی دہلیز پر چھوڑ آیا کرتے ہیں کچھ ہی دنوں بعد وہ اپنا در کھول دیتی ہے رات کے پاس سمندر جیسا ظرف ہوتا ہے وہی وہ وسعت وہی خاموشی وہی گہرائی۔

رب العالمین اور رحمت اللعالمین کے ہاں کوئی تفریق نہیں تفریق کو ختم کرنا ہی خود شناسی اور درویشی ہے۔

پنچھی کسی غیر کے دانے کی عادی ہو جائیں تو انہیں آزاد کر دینا چاہیے۔

اس خاکی نے روحوں کو بہت دکھ دیے ہیں یہ ان کو بھوکا پیاسا رکھتا ہے اسی لیے تو یہ بھٹک جاتی ہیں ان کی خوراک محبت، احساس، در،د انسانیت اور قرب الہی میں ہے۔

مانگنے والے کا عطا کرنے والے پر جتنا یقین ہوگا اسی قدر عطا ہوگا۔

خاموشی کے ایک لمحے کو پڑھنے کے لیے صدیوں کا علم اور ریاضت چاہیے۔

بولے بغیر کہنے کے ہنر کو خاموشی کہتے ہیں اور یہ ہنر صرف اہل علم اور اہل دل ہی کو عطا ہوا ہے۔

دیے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ بیک وقت روشنی کو بھی دیکھ سکتے ہیں اور تاریکی کو بھی برقی قمقموں میں آپ رات اور اندھیرے کو دیکھ ہی نہیں پاتے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم چھپنا چاہتے ہیں ہم بھیس بدل کر انسانوں کے درمیان چلتے رہتے ہیں یہاں تک کہ مذہب کے ساتھ بھی۔

جب سب کچھ سمجھ نہ آنے کے باوجود سب کچھ سمجھ میں آجائے تو اسے ہی محبت کہتے ہیں اور ایسے ہی محبت ہم وحدہ لا شریک سے کرتے ہیں۔

جو شکوہ لفظوں کا روپ نہ دھار سکے اور آنکھوں سے گر جائے اسے آنسو کہتے ہیں اور محبت کی کوئی داستان بھی آنسوؤں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔

پریت کا بھید اور بھید کا بھید جاننے کی سعی ضرور کرنا بھید کا بھید اگرچہ ملے گا نہیں مگر اس سفر میں آپ کا سارا وجود صندل بن جائے گا اور اس کی خوشبو سے کائنات مہک جائے گی۔

جسے خاموشی کا ظرف نصیب ہو جائے اسے راز عطا کر دیے جاتے ہیں۔

حقیقت کیا ہے یہ صرف اہل دل اور اہل ذکر ہی جانتے ہیں یہ لوگ یہ بھی جانتے ہیں غلام قومیں صرف دوسروں کی تباہی پر بھنگڑے ہی ڈالتی ہیں اور تاریخ میں تو زندہ رہنے کے لیے آزاد ہونا پڑتا ہے۔

کسی کی ذات سے انکار کر کے اور اس کے وجود کو مسمار کر کے چاہا بھی جائے تو کیا حاصل کیا؟

خاموشی سنت رب ہے۔

درویش اللہ کی رحمت کو محدود نہیں سمجھتا درویش پس محراب چلتا ہوا دیپ ہے اور درویش کی نشانی؟ جہاں بے نشانی ہی نشانی ٹھہرے۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *