تحریر:چائے کا کپ
من چاہے شخص کے ساتھ شام کی چائے پینا شاید میسر آ بھی جائے مگر میں جن لوگوں کے ساتھ چائے پینا چاہتی تھی وہ لوگ مجھ سے پہلے ہی گزر گئے۔۔۔
میں ایک کپ چائے “احمد فراز” کے ساتھ پینا چاہتی تھی۔۔۔۔
جس شام میں ان سے ان پر گزرے کرب کی کیفیت معلوم کرنا چاہتی تھی جب انھوں نے لکھا تھا:
اب ترے ذکر پہ ہم بات بدل دیتے ہیں
کتنی رغبت تھی ترے نام سے پہلے پہلے
ایک کپ چائے مجھے “پروین شاکر” کے ساتھ پینی تھی
جب میں ان سے محبوب کی بے وفائی کا قصہ سنتی اور وہ بدلے میں مجھے اپنا شعر سناتیں:
تو بدلتا ہے تو بےساختہ میری آنکھیں
میرے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں
ایک کپ چائے میں “محسن نقوی”کے ساتھ پینا چاہتی تھی جب میں ان سے سیکھتی محبوب پر اعتماد کرنا کیا ہوتا ہے۔کیوں کہ مرشد فرماتے ہیں:
اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہوں گے
وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آکر
ایک سردی کی سہانی شام میں گرم چائے کا کپ محترم “فیض احمد” کے ساتھ پینا چاہتی تھی اور ان سے جاننا چاہتی تھی۔۔۔۔محبوب کی نیت میں کھوٹ ہو تو کیا اس کے نینوں سے جھلکے گا؟
کیوں کہ محترم فرماتے تھے:
تیری صُورت سے ھے ، عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سِوا ، دُنیا میں رکھا کیا ھے۔
اور بات کروں رنگیں دنیا میں بےشمار لوگوں کی
تو کاش میرے نصیب میں”قتیل شفائی” کے ساتھ شام گزارنا ہوتا میں ان سے ان کی زبانی سنتی:
ﺍُﺱ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﺩﻟﺮﺑﺎﺋﯿﺎﮞ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ
ﮨﺰﺍﺭ ﻟﻮﮒ ﻣﻠﯿﮟ ﮔﮯ ﻣﮕﺮ ﮐﮩﺎﮞ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ
اور پھر کبھی بیزار ہوکر پناہ اور سکون کی تلاش ہوتی تو میں مرشد محترم “جون ایلیا” کی خدمت میں حاضر ہوکر مرشد کے ہاتھ چوم کر کہتی
مرشد لمحہ بیزاری میں آپ نے بجا فرمایا تھا:
“اے شخص” اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی۔۔۔۔۔
اور آخر میں “چائے کے آخری کپ” کا آخری گھونٹ
نصرت فتح علی کی قوالی کی محفل میں ان کے اس جملے کے نذر کرتی:
“ایک دن وہ ضرور آئیں گے
غم خوشی میں بدل جائے گا
اس زمانے کی پرواہ نہیں
یہ زمانہ بدل جائے گا”
مگر افسوس میری یہ حسرت کبھی پوری نہ ہوسکے گی میرے “خالی کپ” پر ان ستاروں کے نام کی فقط گرد ہی جمی رہے گی ۔