محمد اسلام فدا

تازہ غزل با ذوق احباب کی نذر
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔………………………..

بات کرنے سے جب میں جھجھکتا رہا
لب تھے خاموش پر دل دھڑکتا رہا

پھر اجالوں نے ہی روشنی چھین لی
رات بھر اک ستارہ چمکتا رہا

خوب کرتی رہی ہے شرارت ہوا
خوب چہرے سے آ نچل سرکتا رہا

اس کی خوشبو ہواؤں میں بستی رہی
پھول جیسا بدن جب مہکتا رہا

بعد میرے رہا منتظر بس ترا
مر گیا میں مگر دل دھڑکتا رہا

زد میں آیا ہے کس کس کا دامن یہاں
ایک شعلہ کہاں تک لپکتا رہا

پیڑ کے سائے میں ہم ملے جب کبھی
شاخ پر ایک بلبل چہکتا رہا

داغ جو بے وفائی کا دے کر گیا
یاد کر کے اسے دل سسکتا رہا

سارا دریا ہوا خشک جب بھی فدا
ایسے میں پھر سمندر سرکتا رہا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *