“خواب نگر”
ہم لوگ پرانی روحیں ہیں
ہم لوگ ویران جزیرے ہیں
ہمیں اپنا پتہ معلوم نہیں
ہم لوگ کہاں سے آئے ہیں؟
ہمیں کون یہاں تک لایا ہے؟
ہمیں کون دعا میں مانگے ہے؟
ہم کس کے ہاتھ کی ریکھا ہیں؟
ہم خود کو ڈھونڈنے نکلیں جب
اور چلتے چلتے تھک جائیں
سنسان سڑک،ویراں رستے
خاموش درخت اور تنہائی
جب راہ نظر نہ آئے تو
ہم تھک کے بیٹھ جاتے ہیں ۔۔۔
اور اپنے سارے دل کا غم “آکاش” کو ہم سناتے ہیں۔۔۔۔
آکاش جو دل کا ساتھی ہے۔
جو ساری ویرانی جانتا ہے۔
ہم کب،کیسے اور کیوں ٹوٹے
وہ ساری کہانی جانتا ہے۔
کب دھوپ ڈھلی اور شام آئی
تقدیر پہ اپنی رات آئی
وہ ساری باتیں جانتا ہے
بس وہ ہی ہمیں پہچانتا ہے
آکاش کی عین وسط میں
اک چاند چمکتا رہتا ہے
ہم کو یہ لگنے لگتا ہے
ہم چاند کے ہاتھ کی ریکھا ہیں۔۔۔۔
“آکاش” سے جب ہم پوچھتے ہیں
ہم لوگ کہاں سے آئے ہیں؟
آکاش بتاتا ہے ہم کو
ہم خواب نگر سے آئے ہیں۔۔۔۔