ڈاکٹر فرزانہ فرحت۔لندن

یہاں جو اس قدر آہ و فغاں معلوم ہوتی ہے
کسی کے آنسوؤں کی داستاں معلوم ہوتی ہے

عجب ہی بے قراری ہے عجب ہے بے بسی دیکھو
کسی قاتل کے پنجے میں یہ جاں معلوم ہوتی ہے

مرا تم حوصلہ دیکھو کہ ہر اک گام پر منزل
مجھے گردِ سفر اور بے نشاں معلوم ہوتی ہے

اگر ہے یہ مکانِ دل فقط اک سرد سا خانہ
تو شعلوں کی تپش کیوں کر یہاں معلوم ہوتی ہے

نہ جانے کیوں میں رستوں کے بھنور میں قید ہوں اب تک
مری منزل مجھے کیوں بے نشاں معلوم ہوتی

متاعِ زیست ہے یہ آبلہ پائی مجھے فرحت~
اداسی بھی متاعِ کارواں معلوم ہوتی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *