وہ خواب جب کبھی روزِ ازل کے دیکھتا ہے
حساب کر کے جو اپنے عمل کے دیکھتا ہے
میں روز خواب میں ہمراہ جس کے ہوتی ہوں
کبھی کبھی وہ مرے ساتھ چل کے دیکھتا ہے
یہ دل جو عشق کی راہوں پہ چل کے دیکھتا ہے
ہزار رنگ کے آنچل بدل کے دیکھتا ہے
وہ وہ جس نے قدر نہ کی جیتے جاگتے میری
وہ شخص آج مجھے ہاتھ مل کے دیکھتا ہے
افق کے پار نہ جانے ہے کون سا منظر
کہ آفتاب جہاں روز ڈھل کے دیکھتا ہے
میں دیکھتی ہوں اُسے جا چکے زمانے میں
وہ شخص مجھ کو مگر آج کل میں دیکھتا ہے
ہر ایک رُخ سے میں اُس کو پسند ہوں فرحت~
ہوا ہی کیا جو وہ پہلو بدل کے دیکھتا ہے