گلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
(یوم اقبال پر خصوصی تحریر)
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
[email protected]
علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ” گلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ” اور پھر کہتے ہیں کہ ”ہے دیکھنے کی چیز، اسے بار بار دیکھ” اس غزل کو ناشناس نامی ایک افغان گلوکار نے اپنی سریلی آواز میں گا کر امر کردیا ہے۔ اقبال کی یہ غزل ان کی فلسفیانہ سوچ، روحانی بصیرت اور انسانی وجود کی مختصر نوعیت کے گہرے ادراک پر مبنی بہترین شاعری ہے۔ اس غزل میں اقبال انسان کو خودشناسی، تفکر و تدبر غور و فکر اور اس کے حقیقی مقصد کو سمجھنے کی ترغیب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اقبال کہتے ہیں:
گلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز، اسے بار بار دیکھ
علامہ اقبال اس شعر میں قاری کو اس فانی دنیا کو اجنبی نگاہوں سے نہ دیکھنے کی نصیحت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دنیا اپنی رنگینیوں اور خوبیوں کے سبب بار بار دیکھنے اور غور و فکر کرنے کے لائق ہے۔ یہاں اقبال کا اشارہ ہمیں دنیا کی عارضی نوعیت، بے ثباتی اور اس کے عناصر کے مطالعے کی طرف ہے۔ اقبال کے مطابق دنیا کو صرف سرسری نظر سے دیکھنے کی بجائے اس کے اندرونی اسرار و رموز کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیوں کہ اس میں انسان کے لیے سیکھنے، سمجھنے اور آگاہی کے بے شمار انمول مواقع موجود ہیں۔ اقبال کہتے ہیں:
آیا ہے تو جہاں میں مثالِ شرار دیکھ
دم دے نہ جائے ہستیِ ناپایدار دیکھ
اس شعر میں اقبال دنیا کی فانی اور مختصر اور عارضی نوعیت کو بیان کرتے ہیں۔ وہ انسان کو چنگاری سے تشبیہ دیتے ہیں جو پل میں پیدا ہوتی ہے اور پل میں بجھ جاتی ہے۔ یہاں اقبال انسان کو اس کی ناپائدار زندگی کے دھوکے سے بچنے کی تاکید کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور انسان کو اسے اپنے وجود کے حقیقی مقصد کی طرف بھرپور توجہ دینے کی دعوت دیتا ہے۔ اقبال کا فلسفہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنی مختصر زندگی میں اپنے اصلی مقصد کو سمجھنا اور حاصل کرنا چاہئیے، ورنہ زندگی انسان کو دھوکا دے کر ختم ہو جائے گی۔ اقبال شوق اور انتظار کی بات یوں کرتے ہیں:
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ، میرا انتظار دیکھ
یہاں اقبال اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے شوق و انتظار کی شدت کو بیان کیا ہے ۔ شاعر اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپنے محبوب کے دیدار کے تو لائق نہیں، مگر اس کا شوق اور انتظار اتنا شدید ہے کہ محبوب کی بے اعتنائی کا مقابلہ کر رہا ہے۔ یہ شعر محض عاشق اور محبوب کے تعلق کا بیان ہی نہیں بلکہ انسان اور رب کے درمیان تعلق کی ایک جھلک بھی پیش کرتا ہے۔ اقبال دراصل اللہ سے محبت اور اس کے قرب کا طلبگار ہے، چاہے وہ خود کو اس کے قابل نہ بھی سمجھے۔ اقبال کہتے ہیں:
کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھیں تری اگر
ہر رہ گزر میں نقشِ کفِ پائے یار دیکھ”
اس شعر میں اقبال کا کہنا ہے کہ اگر کسی کو محبوب کی طلب اور جستجو نے بیدار کر دیا ہے، تو اسے ہر راستے میں اپنے محبوب کے قدم کے نشانات صاف صاف نظر آئیں گے۔ اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کے نقوش کی تلاش کا ذکر کرتا ہے، جو دراصل ایک روحانی سفر کی جانب اشارہ ہے۔ یہاں محبوب کی تلاش ہر سمت میں ہوتی ہے، کیوں کہ جب عشق حقیقی کا شعور حاصل ہو جائے تو انسان کو ہر چیز میں اپنے محبوب کی جھلک محسوس ہونے لگتی ہے جو کہ سچے عشق کی نشانی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ علامہ اقبال کی یہ غزل انسان کو اس کے وجود، دنیائی زندگی کی ناپائیداری اور حقیقی زندگی کی تلاش کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ دنیا ایک خوبصورت اور پرکیف حقیقت ہے، جس کا مشاہدہ کرنے اور اس پر غور و فکر کرنے سے انسان اپنی روحانی تربیت کر سکتا ہے۔ اقبال اپنے فلسفیانہ اشعار کے زریعے انسان کو اس کی زندگی کے اصل مقاصد سے روشناس کراتے ہیں اور انسان کے اندر اللہ کی محبت اور قرب کی جستجو پیدا کرتے ہیں جو کہ اقبال کے فلسفیانہ سوچ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل [email protected] اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔