ہم حبس کے مارے ہیں خریدار ہوا کے
اور شہر میں ناپید ہیں آثار ہوا کے
ہم نے تو چراغوں کا ارادہ ہی کیا تھا
جھونکے اتر آئے لبِ دیوار ہوا کے
اِس آس پہ مصروف تماشا ہیں یہ آنکھیں
اِک منظرِ نادیدہ ہے اُس پار ہوا کے
اے موجۂ خوشبو! ترے بیوپار کی خاطر
کھلنے لگے ہر شہر میں بازار ہوا کے
اے گوشۂ آرام میں بیٹھے ہوئے پنچھی!
آ دیکھ کبھی دشت میں آزار ہوا کے
لے آئے اگر اُن کے نشیمن کی خبر بھی
چومیں گے پرندے لب و رُخسار ہوا کے
بیٹھے ہی رہیں اور تری خوشبو نہ سمیٹیں؟
ہوویں گے نہ ہم لوگ گنہگار ہوا کے
ثاقبؔ! یہ سکھایا ہے مجھے میرے پَروں نے
آزاد ہی رہتے ہیں گرفتار ہوا کے