زمانے بھر کی ہر اک چیز تو پراٸی ہوٸی
خدا کا شکر ترے دل تلک رساٸی ہوٸی
تو ایک روز مجھے چل کے ملنے آیا تھا
تری تھکن ہے مرے جسم میں سماٸی ہوٸی
لباس ِ شب میں رچی خوشبوٸیں بتاتی ہیں
یہ چاندنی ترے رنگوں میں ہے نہاٸی ہوٸی
ہیں بندشوں سے زمانے کی کب بھلا آزاد
ہمارے شعر ہوۓ یا تری کلاٸی ہوٸی
ہمیشہ جذبے ہی تضحیک کا نشانہ بنے
ہمیشہ اہل ِ محبت کی جگ ہنساٸی ہوٸی
یہ دشمنوں کا چلو ایسا کرنا بنتا تھا
مگر جو تہمتیں اپنوں نے ہیں لگاٸی ہوٸی
عجب نہیں کہ یہ لاوا ابل پڑے جاذب
جو خواہشیں میں نے سینے میں ہیں دباٸی ہوٸی